پھر دیکھیے جو حرف بھی نکلے زبان سے
اک دن جو پوچھ بیٹھیے کیا چاہیے ہمیں
کہنے کو حق نِگر ہیں حقیقت ہے آرزو
سچ پوچھیے اگر تو خُدا چاہیے ہمیں
جون ایلیاء
کیا خطا تھی پیمبروں کی بھلا
کیوں غریبوں کو بے خطا بھیجا
جون لوح و قلم کے مالک نے
دوسروں کا لکھا ہوا بھیجا
جون ایلیا
عشق سمجھے تھے جس کو وہ شاید
تھا بس اک نارسائی کا رشتہ
جون۔
مدت سے ہم کسی کو نہیں دے سکے فریب!!
اے شہرِ اِلتفات، وفا چاہیے ھمیں !!
جون ایلیاء
No comments:
Post a Comment